بارش


 

سفر کی ابتداء اور انتہا ہمیشہ نامعلوم ساعتوں کی گود میں اٹھکھیلیاں کرتی ہے اور ہم ذہانت کی ارفع سطح پر خود فریبی کے گیت گاتے ہیں۔ پکے راگ میں گیت کے بول فضا مرتعش ہو رہے تھے اور باہر دھوپ نکھری ہوئی تھی۔ آسمان شفاف تھا۔ دور دور تک بادلوں کا نام و نشان نہ تھا، موسم سرما کا زمانہ تھا اس لیے آسمان پر بادل کم ہی نظر آتے، البتہ صبح صبح ہر طرف کہرے کی دھند ضرور چھائی رہتی۔ جیسے جیسے سورج کی روشنی میں تمازت آتی جاتی۔۔۔ دھند چھٹتی جاتی اور۔۔۔ جوں جوں سورج۔۔۔ دور افق میں مغرب کی جانب اپنا سفر مکمل کرتا دھند کی چادر ایک ہلکی پرت کی صورت پھیلتی جاتی۔

یعنی زمین کی گردشوں کی صورت یہ سب، یا سب۔۔۔مزید پڑھیں 

Comments

Popular posts from this blog

ظالم محبت

کھل بندھنا

ہائے اللہ