Posts

Showing posts from January, 2023

سیڑھیاں

Image
  یہ ایک ناسٹلجیائی کہانی ہے۔ گزرے ہوئے دنوں کی یادیں کرداروں کے لاشعور میں محفوظ ہیں جو خواب کی صورت میں انھیں نظر آتی ہیں۔ وہ خوابوں کی مختلف تعبیریں کرتے ہیں اور اس بات سے بے خبر ہیں کہ یہ ماضی کا ورثہ ہیں جن کی پرچھائیاں ان کا پیچھا کر رہی ہیں۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان خوابوں نے انھیں اپنی بازیافت کے عمل پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘ بشیر بھائی ڈیڑھ دو منٹ تک بالکل چپ بیٹھے رہے، یہاں تک کہ اختر کو بے کلی بلکہ فکر سی ہونے لگی، انھوں نے آہستہ سے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور ذرا حرکت کی تو اختر کی جان میں جان آئی مگر ساتھ میں ہی یہ دھڑکا کہ نہ جانے ان کی۔۔۔ مزید پڑھیں

بابر کی موت

Image
 اسٹیج پر ہر روز ڈرامے کھیلے جاتے ہیں ، مگر ان میں سے کتنے معنی کے لحاظ سے مکمل ہوتے ہیں ۔۔۔ دراصل خامکاری اسٹیج کا قانون ہے۔اگر کسی ڈرامے کا پہلا ایکٹ شاندار ہے تو اس کے آخری ایکٹ پہلے ایکٹ کی جان کے قدموں میں دم توڑتے نظر آئیں گے۔ اگر کسی ڈرامے کا انجام اچھا ہے تو آغاز بُرا ہے۔ کلائمیکس ہے تو سسپنس نہیں ہوگا۔ اگر سسپنس ہے تو کلائمیکس نظر نہیں آئیگا ۔۔۔ ایسے کردار نظر آئیں گے جو بڑے بڑے مراحل آسانی کے ساتھ طے کریں گے ۔ مگر چھوٹی چھوٹی مشکلات کا مقابلہ کرتے وقت ان کی پیشانی پسینے سے بھر جائے۔۔ مزید پڑھیں  

چاول

Image
 گزشتہ جولائی کا ذکر ہے کہ ا یک عجیب شخص سے ملاقات ہوئی۔ یہ حضرت ایک کمپنی کے ٹریولنگ ایجنٹ ہیں۔ اپنی تجارت کے سلسلے میں یہاں آئے۔ ایک اور صاحب ڈاک بنگلے میں ٹھہرے تھے، جن سےملاقات ہوئی اور ان کی وجہ سے آپ سے بھی تعارف حاصل ہوا۔ میں نے دونوں حضرات کو کھانے پر مدعو کیا۔ اول تو انہوں نے انکار کیا لیکن بعد میں راضی ہو گئے۔ مگر کہنے لگے ’’ایک شرط پر۔‘‘ میں نے پوچھا تو معلوم ہوا کہ چاول میز پر نہ آئیں۔ میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ قسم ہے۔ زیادہ میں پوچھنا بھی۔۔۔ مزید پڑھیں

سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے

Image
 سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے نظر سے گرنا بھی گویا خبر میں رہنا ہے ابھی سے اوس کو کرنوں سے پی رہے ہو تم تمہیں تو خواب سا آنکھوں کے گھر میں رہنا ہے ہوا تو آپ کی قسمت میں ہونا لکھا تھا۔۔۔ مزید پڑھیں

تین موٹی عورتیں

Image
  (اسٹیج دو حصوں میں منقسم ہے یوں ایک بڑا اور ایک چھوٹا کمرہ بن گیا ہے ان کے درمیان چوبی تختے کی پارٹیشن ہے جس میں ایک سپرنگوں والا دروازہ ہے۔ بڑے کمرے میں صوفہ سیٹ رکھا ہے۔ چار پانچ آرام کرسیاں بھی پڑی ہیں۔ درمیان میں ایک وزنی تپائی ہے جس پر بہت بڑا پھولدان دھرا ہے۔ اس تپائی کے نچلے تختے پر چند اخبار پڑے ہیں۔ دوسرے کمرے میں ڈاکٹر ایک مریض عورت کی نبض دیکھنے میں مشغول ہے۔ کمرہ بہت نفیس ہے وزن کرنے کی مشین کے علاوہ اور بہت سے آلات اس میں چمک رہے ہیں۔ میز موٹی موٹی کتابوں سے لدی ہے۔ ذیل کا مکالمہ بڑے کمرے میں دو عورتوں کے درمیان پردہ اٹھتے ہی شروع ہوتا ہے۔ مسزملی موریہ: میں آپ کا نام پوچھ سکتی ہوں۔۔۔ مزید پڑھیں

اپنی آگ کی طرف

Image
  میں نے اسے آگ کی روشنی میں پہچانا۔ قریب گیا۔ اسے ٹہوکا۔ اس نے مجھے دیکھا پھر جواب دیے بغیرے ٹکٹکی باندھ کر جلتی ہوئی بلڈنگ کو دیکھنے لگا۔ میں بھی چپ کھڑا دیکھتا رہا۔ مگر شعلوں کی تپش یہاں تک آرہی تھی۔ میں نے اسے گھسیٹا، کہا کہ چلو۔ اس نے مجھے بے تعلقی سے دیکھا۔ پوچھا، ’’کہاں؟‘‘ میں چپ ہوگیا جیسے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر اس نے تیسری منزل والے کونے کے کمرے کی طرف اشارہ کیا جو دھوئیں سے اٹا ہوا تھا اور جس کی دیوار سے پلستر کے جلتے ہوئے پتڑ کے پتڑ گر رہے تھے۔ ’’میں اس کمرے میں رہتا ہوں۔‘‘ ’’مجھے معلوم ہے،‘‘ میں نے جواب۔۔۔ مزید پڑھیں

کفن میں ایک سو ایک سال

Image
 (ایک) ناگ دیو مر گیا۔۔۔ اب وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ کل رات میں نے اس کی ارتھی دیکھی۔ سفید کفن میں رسیوں سے کس کر بندھا ہوا اس کا جسم ارتھی اٹھانے والوں کے کندھوں پر تیرتا ہوا نکل رہا تھا۔ میں ارتھی کے ساتھ نہ جا سکا۔ دماغ نے میرے جسم سے الگ ہو کر کہا۔ ’’جاؤ، ناگ دیوتا کو چِتا پر جلتے دیکھ آؤ۔‘‘ میں ارتھی کے ساتھ جانے والوں کی۔۔۔ مزید پڑھیں  

آؤ چوری کریں!

Image
 کشور: (ایکا ایکی اپنی بیوی سے )آؤ چوری کریں! لاجونتی: کیا کہا؟ کشور: یہ کہا‘ آؤ چوری کریں! لاجونتی: میں سمجھی۔۔۔اب آپ چوری اور سینہ زوری پر اُتر آئے ہیں یعنی مجھے بتا کر میری چیزیں اُڑانا چاہتے ہیں۔ ہے نا یہی بات؟ کشور: بھئی کیا سمجھی ہو۔۔۔ داد دیتا ہوں تمہاری سُوجھ بُوجھ کی۔۔۔ میں فقط چوری کرنے کو کہہ رہا تھا‘ سینہ زوری نہیں۔ یہ سینہ زوری کا اضافہ تم نے اپنی طرف سے کیا ہے۔ لاجونتی: آؤ چوری کریں کا مطلب یہ ہوا کہ آپ خود بھی۔۔۔ مزید پڑھیں

انصاف

Image
  دروازہ کھلتا ہے۔ چوبدار تین مرتبہ فرش پر اپنی لاٹھی سے آواز پیدا کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے۔ چوبدار: باادب: با ملاحظہ، ہوشیار، نظریں روبرو، شہنشاہِ عالم لنچ کے لیئے تشریف لارہے ہیں۔ شہنشاہِ عالم کے قدموں کی بھاری چاپ سنائی دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ تشریف لاتے ہیں۔ شہنشاہ: ہیڈ بٹلر کہاں ہے؟ چوبدار ایک بہت بڑی ڈِش سے سرپوش اُٹھاتا ہے۔ہیڈ بٹلر۔۔۔ مزید پڑھیں 

شام غم اور ستاروں کے سوا

Image
  شام غم اور ستاروں کے سوا جی سکے ہم نہ سہاروں کے سوا تلخیٔ آخر شب کون سہے ہجر میں درد کے ماروں کے سوا بے رخی بھی تو بجا ہے لیکن۔۔۔ مزید پڑھیں

مفت میں کیوں لیں شب غم موت کے آنے کا نام

Image
  مفت میں کیوں لیں شب غم موت کے آنے کا نام حوصلے کا پست ہو جانا ہے مر جانے کا نام اب نہیں لیتے دل ناداں کے سمجھانے کا نام جیسے آتا ہی نہ ہو ان کو ترس کھانے کا نام اک زمانہ تھا نگاہ شرمگیں اٹھتی نہ تھی۔۔۔ مزید پڑھیں

ہجوم غم میں اگر مسکرا سکو تو چلو

Image
 ہجوم غم میں اگر مسکرا سکو تو چلو کہ ظلمتوں میں کرن بن کے آ سکو تو چلو جہاں سے شیوۂ باطل مٹا سکو تو چلو یہ عزم لے کے مرے ساتھ آ سکو تو چلو اک انقلاب خیالوں میں لا سکو تو چلو۔۔۔ مزید پڑھیں

شطرنج کی بازی

Image
  نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے امیر و غریب سب رنگ رلیاں منارہے تھے۔کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کی پینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر ایک شعبہ میں رندی ومستی کا زور تھا۔ امور سیاست میں، شعر وسخن میں، طرز معاشرت میں، صنعت وحرفت میں، تجارت وتبادلہ میں سبھی جگہ نفس پرستی کی دہائی تھی۔ اراکین سلطنت مے خوری کے غلام ہورہے تھے۔ شعرا بوسہ وکنار میں مست ،اہل حرفہ کلابتوں اور چکن بنانے میں،اہل سیف تیتر بازی میں، اہل روزگار سرمہ و مسی، عطر و تیل کی۔۔۔ مزید پڑھیں

قانون کی حفاظت

Image
  ایک بڑا کمرہ جیسا کہ عام طور پر کامیاب وکیلوں اور بیرسٹروں کا ہوتا ہے اس کے وسط میں ایک بہت بڑا میز ہے جس پربیشمار کاغذات پڑے ہیں۔ کچھ پلندوں کی صورت میں، کچھ بکھرے ہوئے اور کچھ ٹریز میں، سامنے ریک میں بھاری بھر کم کتابیں رکھی ہیں۔ کمرے کی دیواروں کے ساتھ بڑی بڑی الماریاں ہیں جو قانونی کتابوں سے بھری ہوئی ہیں اس میز کے ساتھ گھومنے والی کرسی پر وکیل صاحب بیٹھے ہیں۔ ان کے ایک طرف فرش پر انکا منشی چشمہ چڑھائے ڈیسک کے پاس بیٹھا ہے اور کاغذات دیکھنے میں مصروف ہے۔ وکیل صاحب کے سامنے ان کا موکل بیٹھا ہے جو اپنی گفتگو ختم کر۔۔۔ مزید پڑھیں

نئی بہوکے نئے عیب

Image
 لوآج صبح ہی سے انہوں نے پھرشورمچانا شروع کردیا۔ ’’اے بہن کیاپوچھتی ہو کہ تمہاری ساس کیوں خفا ہورہی ہیں۔ ان کی عادت ہی یہ ہے کہ ہرآئے گئے سب کے سامنے میرا رونا لے کربیٹھ جاتی ہیں۔ ساری دنیا کے عیب مجھ میں ہیں۔ صورت میری بری۔ پھوہڑمیں۔ بچوں کورکھنا میں نہیں جانتی۔ اپنے بچوں سے مجھے دشمنی۔ میاں کی میں بیری۔ غرض کہ کوئی برائی نہیں جو مجھ میں نہیں اورکوئی خوبی نہیں جوان میں نہیں۔ اگر میں کھانا پکاؤں تو زبان پررکھ کرفوراً تھوک دیں گی اور وہ نام رکھیں گی کہ خدا کی پناہ کہ دوسرا بھی نہ کھاسکے۔ شروع شروع میں تومجھے کھانا پکانے میں کافی دلچسپی تھی۔ تم جانتی ہو کہ۔۔۔ مزید پڑھیں  

تین صلح پسند عورتیں

Image
 فراخ اور کشادہ کمرہ معمولی فرنیچر سے آراستہ ہے۔ مگر اس آرائش میں حسن نظر نہیں آتا۔ چیزیں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ بچے کے پوتڑے اور کلوٹ سکھانے کی خاطر تین چار کرسیوں کی پشت پر لٹکے نظر آتے ہیں۔۔۔ مرزا اخبار پڑھنے میں بے طرح مشغول ہے۔ سعیدہ پاس ہی صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھی ہے۔ اور چھوٹی قینچی سے اپنے پیر کے ناخن کاٹ رہی ہے۔۔۔ اس کے سامنے دروازہ ہے جس کی چٹخنی لگی ہوئی ہے۔ دائیں ہاتھ کو ایک اور دروازہ ہے۔ جس سے دوسرے کمرے کی جھلک نظر آتی ہے) سعیدہ: کچھ تمہیں گھر کی فکر بھی ہے۔۔۔ بس اخبار لے کے بیٹھ جاتے ہو مرزا: (سعیدہ کا خاوند) ہاں ۔۔۔ تو پھر کیا۔۔۔ مزید پڑھیں

بھابی

Image
 بھابی بیاہ کر آئی تھی تو مشکل سے پندرہ برس کی ہوگی۔ بڑھوار بھی تو پوری نہیں ہوئی تھی۔ بھیا کی صورت سے ایسی لرزتی تھی جیسے قصائی سے گائے مگر سال بھر کے اندر ہی وہ تو جیسے منہ بند کلی سے کھل کر پھول بن گئی جسم بھر گیا۔ بال گھمیرے ہوگئے۔ آنکھوں میں ہرنوں جیسی وحشت دور ہوکر غرور اور شرارت بھر گئی۔ بھابی ذرا آزاد قسم کے خاندان سے تھی، کانوینٹ میں تعلیم پائی تھی۔ پچھلے سال اس کی بڑی بہن ایک عیسائی کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اس لیے اس کے ماں باپ نے ڈر کے مارے جلدی سے اسے کانوینٹ سے اٹھایا اور چٹ پٹ شادی کردی۔ بھابی آزاد فضامیں پلی تھی۔ ہرنیوں کی طرح قلانچیں بھرنے کی عادی تھی مگر سسرال اور۔۔۔ مزید پڑھیں

گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے

Image
 گزر گئے ہیں جو موسم کبھی نہ آئیں گے تمام دریا کسی روز ڈوب جائیں گے سفر تو پہلے بھی کتنے کیے مگر اس بار یہ لگ رہا ہے کہ تجھ کو بھی بھول جائیں گے الاؤ ٹھنڈے ہیں لوگوں نے جاگنا چھوڑا۔۔۔ مزید پڑھیں

ماچس کی ڈبیا

Image
 دیدی (گہرا سانس لے کر) تواب مجھے اس کمرے میں رہنا ہو گا۔۔۔ کیا کہتے ہیں بمبئی کی زبان میں ایسے کمروں کو۔ پال: کھولی۔ دیدی: کتنا واہیات نام ہے۔۔۔ غربت کی توہین ایسے ہی بدنما ناموں سے تو ہوتی ہے۔۔۔کھولی۔۔۔ یعنی جس نے چاہا کھول لی۔۔۔ مجھے غریبی سے اتنی وحشت نہیں ہوتی جتنی غربت ظاہر کرنے والی چیزوں سے ہوتی ہے۔۔۔ پال: جناب یہ فلسفہ بگھارنے کا وقت نہیں‘ پہلے آپ اپنا سامان ٹھکانے سے رکھ ۔۔۔ مزید پڑھیں

پسینہ

Image
  ازدواجی زندگی کی نوک جھونک پر مبنی کہانی ہے۔ ایک دن شوہر آفس سے واپس آتا ہے تو خلاف توقع اس کی بیوی اس سے بڑی محبت سے پیش آتی ہے۔ شوہر بہت دیر تک ماجرا سمجھ نہیں پاتا، پھر بیوی بتاتی ہے کہ آج اس کی سہیلی آئی تھی اور وہ اپنے خاوند سے بہت خوش ہے۔ اس نے کچھ ایسی باتیں بتائی ہیں جو آپ کو نہیں بتاؤں گی۔ شوہر کہتا ہے کہ تم اپنی سہیلی سے ایسی باتیں روز سنا کرو تاکہ ہماری زندگی خوشگوار رہے۔‘‘ ’’میرے اللہ۔۔۔! آپ تو پسینے میں شرابور ہورہے ہیں۔‘‘ ’’نہیں۔ کوئی اتنا زیادہ تو پسینہ نہیں آیا۔‘‘ ’’ٹھہریے میں تولیہ لے کر آؤں۔۔۔ مزید پڑھیں

تحفہ

Image
 کالج کا گھنٹہ بجتا ہے۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی کئی قدموں کی آواز شیلا: جگل۔۔۔۔۔۔جگل! جگل: او۔۔۔۔۔۔شیلا شیلا: میں تم سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں جگل: کہو۔ شیلا: میں نے بہت غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہمارا آپس میں ملنا ٹھیک نہیں۔ کالج میں یا کالج کے باہر اب ہمیں ایک دوسرے سے نہیں ملنا چاہیئے۔۔۔ مزید پڑھیں

سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے

Image
 سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے نظر سے گرنا بھی گویا خبر میں رہنا ہے ابھی سے اوس کو کرنوں سے پی رہے ہو تم تمہیں تو خواب سا آنکھوں کے گھر میں رہنا ہے ہوا تو آپ کی قسمت میں ہونا لکھا تھا۔۔۔ مزید پڑھیں

پھول کی کوئی قیمت نہیں

Image
 لوگ بابا مراد کو اٹھاکر ادھر لے گئے جدھر بھیڑ کم تھی۔ منہ میں پانی ٹپکایا تو آنکھیں کھل گئیں۔ وہ پھول بیچنے والوں کی دکانوں کے قریب سڑک پر چت پڑا تھا۔ ایک پھول فروش نے کہا ’’پانی کا گلاس پی لے۔ لو لگ گئی ہے‘‘۔ مراد پانی کے چند گھونٹ حلق میں اتارکر کمر پر ہاتھ رکھ کر ہمدردی جتانے والے سے بولا ’’میں ہسپتال میں اپنا خون دے کر آ رہا تھا کہ چکر آیا۔۔۔‘‘ ’’کوئی بات نہیں اٹھ بیٹھ‘۔۔۔ مزید پڑھیں

آج اپنی شام تنہائی کا ہے منظر جدا

Image
 آج اپنی شام تنہائی کا ہے منظر جدا جوش درد دل جدا ہے جوش چشم تر جدا آ گیا ہے دامن قاتل جو اپنے ہاتھ میں سب کا اک محشر جدا ہے اپنا اک محشر جدا کر دیا یہ کیا فسوں ساقی کی چشم مست نے۔۔۔ مزید پڑھیں

عید کارڈ

Image
 مسعود: (ٹائپ کرتا ہے اور ساتھ ساتھ مضمون پڑھتا جاتا ہے)۔۔۔۔۔۔اس زمانے کی جنگوں کے لیئے سب سے ضروری چیزیں لوہا اور فولاد ہیں(وقفہ)۔۔۔۔۔۔ چونکہ نازیوں کا ارادہ نئی جنگ کا تھا اس لیئے انہوں نے اپنے آپ کو مستغنی کرنے کے لیئے بہت کچھ کیا اور جنگ چھڑنے سے پہلے ان تمام کاموں کا مدعا یہی تھا(وقفہ)۔۔۔۔۔۔جنگی ذخائر کی جمع آوری کے لیئے لوہا اور فولاد کی پیداوار کو بہت ہی زیادہ کیا گیاسنہ انیس سو چوتیس عیسوی میں جرمنی نے8703000 ٹن خام لوہا پیدا کیا اور سنہ انیس سو اڑتیس میں یہ پیداوار322800000 ٹن تک پہنچ گئی۔۔۔ مزید پڑھیں

پاک ناموں والا پتھر

Image
  بوسیدگی، زنگ آلود قفل اور خستہ حال عمارتوں کی فضا سے معمور اس کہانی میں پاک ناموں والے پتھر کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ راوی کے خاندان میں اس پتھر کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ ساری جائداد ایک طرف اور پتھر ایک طرف رہتا تب بھی لوگ پتھر کے حصول کو ترجیح دیتے۔ اس پتھر کے سلسلہ میں اس خاندان میں خوں ریزیاں بھی ہوئیں لیکن جب راوی کو وہ پتھر ملتا ہے تو اسے اس میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی، پتھر معمولی ہوتا ہے اور اس پر پاک نام نقش ہوتے ہیں بس۔ پھر بھی وہ اسے گلے میں پہن لیتا ہے اور پھر ایک دن اتار کر ان متبرک چیزوں کے ساتھ رکھ دیتا ہے جو اس کے ساتھ دفن کی۔۔۔ مزید پڑھیں

آنندی

Image
  سماج میں جس چیز کی مانگ ہوتی ہے وہی بکتی ہے۔ بلدیہ کے شریف لوگ شہر کو برائیوں اور بدنامیوں سے بچانے کے لیےشہر سے بازار حسن کو ہٹانے کی مہم چلاتے ہیں۔ وہ اس مہم میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور اس بازار کو شہر سے چھ میل دور ایک ویران جگہ پر آباد کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اب بازارو عورتوں کے وہاں آباد ہو جانے سے وہ ویرانہ گلزار ہو جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد وہ ویرانہ پہلے گاوں، پھر قصبہ اور پھر شہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہی شہر آگے چل کر آنندی کے نام سے جانا جاتا ہے۔‘‘ بلدیہ کا اجلاس زوروں پر تھا۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور خلافِ معمول ایک ممبر بھی۔۔۔ مزید پڑھیں 

دختر رز سے ملاقات ہوئی ہے کہ نہیں

Image
 دختر رز سے ملاقات ہوئی ہے کہ نہیں سچ بتا دے ارے زاہد کبھی پی ہے کہ نہیں مست ساقی کی نگاہوں سے ہیں پینے والے اس کی پروا نہیں شیشے کی پری ہے کہ نہیں مست سب اٹھ گئے پی کر ترے میخانے سے ارے ساقی مرے حصے کی بچی ہے کہ نہیں۔۔۔ مزید پڑھیں

تین تحفے

Image
 (فیچر) راگ اور محبت دل پر ایک جیسا اثر کرتے ہیں۔ دونوں کے سرُ ایک جیسے نرم ونازک اور تیزو تُند ہیں‘ دونوں میں تلخی وشیرینی پہلو بہ پہلو کروٹیں لیتی ہے دونوں رُوح کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ موسیقی محبت سے زیادہ طاقتور ہے........وادی نیل میں پہلی بار قدم رکھنے والی رقاصہ نبیلا راگ اور محبت کے فن کی خفیف سے خفیف ہر لرزش سے واقف تھی اور وہ محسوس کرتی تھی کہ مصر کے سب سے بڑے معبد کی مشہور مغنیہ پلنیگو بھی اُس کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ سات برس تک وہ وادی نیل کی رنگین فضاؤں میں اپنی زندگی کا کوئی نیا سپنا دیکھے بغیر۔۔۔ مزید پڑھیں  

اندھی گلی

Image
 اندھی گلی دونوں نے یکبارگی پلٹ کر دیکھا۔ کہرہ بہت تھا، کچھ نظر نہیں آیا۔ پھر انھوں نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی مگر کچھ سنائی نہیں دیا۔ ’’یار کوئی نہیں ہے،‘‘ ایک نے دوسرے سے کہا اور پھر چل پڑے۔ مگر ابھی چار قدم چلے تھے کہ پھر ٹھٹھک گئے۔ ’’یار کوئی ہے،‘‘ قریب ہوتی ہوئی آہٹ کو انہوں نے سنا۔ پھر ایک ساتھ بھاگ کھڑے ہوئے۔ سڑک سے اتر کر کچے میں آئے جہاں تھوڑا نشیب تھا۔ اکا دکا جھاڑی اور ایک گھنا درخت۔ دونوں درخت کے پیچھے دبک کر بیٹھ گئے۔ کان اس آہٹ پر لگے ہوئے تھے جو قریب ہوتی جارہی تھی اور۔۔۔ مزید پڑھیں

نمک کا داروغہ

Image
 جب نمک کا محکمہ قائم ہوا اور ایک خدا داد نعمت سے فائدہ اٹھانے کی عام ممانعت کردی گئی تو لوگ دروازہ صدر بند پا کر روزن اور شگاف کی فکر کرنے لگے۔ چاروں طرف خیانت، غبن اور تحریص کا بازار گرم تھا۔ پٹوار گری کا معزز اور پر منفعت عہدہ چھوڑ چھوڑ کر لوگ صیغہ نمک کی بر قندازی کرتے تھے۔ اور اس محکمہ کا داروغہ تو وکیلوں کے لیے بھی رشک کا باعث تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزی تعلیم اور عیسائیت مترادف الفاظ تھے۔ فارسی کی تعلیم سند افتخار تھی لوگ حسن اور عشق کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر اعلیٰ ترین مدارج زندگی کے قابل ہو جاتے تھے۔ منشی بنسی دھرنے بھی زلیخا کی داستان ختم کی اور مجنوں اور فرہاد کے قصہ غم کو دریافت امریکہ یا جنگ نیل سے عظیم تر واقعہ خیال کرتے ہوئے روز گار کی۔۔۔ مزید پڑھیں

آؤریڈیوسُنیں!

Image
 لاجونتی: (اشتیاق بھرے لہجے میں اپنے پتی سے)آؤریڈیو سنیں۔ کشور: (خاموش رہتا ہے)۔ لاجونتی: اجی اوسنتے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔۔توبہ‘ تمہارا دماغ کیا ہے ریڈیو کا ڈبہ ہے جوہر دوسرے تیسرے روز خراب ہو جاتا ہے۔ کچھ میں بھی تو سنوں جناب کا مزاج اس وقت کس بات پر بگڑ گیا‘ جومنہ سے ایک دوبول نکالنے میں بھی دشوار ہو رہے ہیں۔ کشور: دفتر سے تھکا ماندہ آیا ہوں۔۔۔ لاجونتی: (بات کاٹ کر) اسی لیئے تو کہتی ہوں آؤ ریڈیوسنیں۔۔۔ اختری کی غزل سنیں۔۔۔ مزید پڑھیں

رنگ کا سایہ

Image
 ہم اسی جگہ جا رہے تھے جہاں سے ہمیں راتوں رات افرا تفری کے عالم میں بھاگنا پڑا تھا۔ امّی کا تو صرف جسم ساتھ آیا تھا روح شاید وہیں بھٹک رہی تھی۔ پھر جسم بھی اس قابل نہیں رہا کہ ان کے وجود کا بار اٹھا سکتا۔ آج اس جسم کو اسی زمین کے سپرد کرنا تھا۔ ویان میں امّی کا بےجان جسم رکھا تھا۔ میں اور بہن پچھلے حصے میں بیٹھے تھے۔ بہنوائی ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر تھے۔ بہن نے غم سے نڈھال ہو کر آنکھیں موند لیں۔ میری آنکھوں میں نیند کا کوسوں پتہ نہ تھا۔ کیا امی کی موت کا ذمہ دار میں ہوں؟ ان کا اکلوتا بیٹا، جسے وہ جان سے زیادہ پیار کرتی تھیں۔ دیوانہ وار چاہتی تھیں۔ نہیں!! امی کو گھر چھوڑنے کا غم تھا۔ لیکن گھر تو چھوٹا میری۔۔۔ مزید پڑھیں

ظاہراً موت ہے قضا ہے عشق

Image
ظاہراً موت ہے قضا ہے عشق پر حقیقت میں جاں فزا ہے عشق دیتا ہے لاکھ طرح سے تسکین مرض ہجر میں دوا ہے عشق تا دم مرگ ساتھ دیتا ہے۔۔۔ مزید پڑھیں

بارش

Image
  سفر کی ابتداء اور انتہا ہمیشہ نامعلوم ساعتوں کی گود میں اٹھکھیلیاں کرتی ہے اور ہم ذہانت کی ارفع سطح پر خود فریبی کے گیت گاتے ہیں۔ پکے راگ میں گیت کے بول فضا مرتعش ہو رہے تھے اور باہر دھوپ نکھری ہوئی تھی۔ آسمان شفاف تھا۔ دور دور تک بادلوں کا نام و نشان نہ تھا، موسم سرما کا زمانہ تھا اس لیے آسمان پر بادل کم ہی نظر آتے، البتہ صبح صبح ہر طرف کہرے کی دھند ضرور چھائی رہتی۔ جیسے جیسے سورج کی روشنی میں تمازت آتی جاتی۔۔۔ دھند چھٹتی جاتی اور۔۔۔ جوں جوں سورج۔۔۔ دور افق میں مغرب کی جانب اپنا سفر مکمل کرتا دھند کی چادر ایک ہلکی پرت کی صورت پھیلتی جاتی۔ یعنی زمین کی گردشوں کی صورت یہ سب، یا سب۔۔۔ مزید پڑھیں  

جیب کترا

Image
 ذیل کا مکالمہ شروع ہو تو اس کے عقب میں بازار کا صوتی منظر پیش کیا جائے۔ گاڑیوں۔ رکشاؤں۔ موٹروں اور راہ گزروں کا شور پیدا کیا جائے۔ ایسا معلوم ہو کہ بڑی بھیڑ بھاڑ ہے۔ (کھوے سے کھوا چھل رہا ہے) ایک آدمی: ارے بھئی اوپر کیوں چڑھے آتے ہو۔ سجھائی نہیں دیتا۔ دوسرا: اماں کچھ ہوش کی دوا کرو۔۔۔۔۔۔ تیسرا: ارے بھائی کیوں دھکے دیتے ہو۔۔۔۔۔۔کچھ اس عورت کا تو لحاظ کرو۔بے چاری پس گئی ہے۔۔۔ مزید پڑھیں

جانے قلم کی آنکھ میں کس کا ظہور تھا

Image
 جانے قلم کی آنکھ میں کس کا ظہور تھا کل رات میرے گیت کے مکھڑے پہ نور تھا نغمہ سا چھیڑتی تھیں تجلی کی انگلیاں توریت کا نزول بہ لحن زبور تھا وہ ساتھ ساتھ اور پہنچنا تھا اس تلک۔۔۔ مزید پڑھیں

حمام میں

Image
  تنہا زندگی گزارتی فرخ بھابھی کی کہانی ہے، جن کے یہاں ہر روز ان کے دوستوں کی محفل جمتی ہے۔ وہ اس محفل کی رونق ہیں اور ان کے دوست ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ اس محفل میں ایک دن ایک اجنبی بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ دو تین بار اور آتا ہے اور پھر آنا بند کر دیتا ہے۔ اس کے نہ آنے سے باقی دوست خوش ہوتے، مگر تبھی انھیں احساس ہوتا ہے کہ اب فرخ بھابی گھر سے غائب رہنے لگی ہیں۔‘‘ نام تو تھا اس کا فرخندہ بیگم مگر سب لوگ فرخ بھابی فرخ بھابی کہا کرتے تھے۔ یہ ایک طرح کی۔۔۔ مزید پڑھیں

ممتحن کا پان

Image
 ریل کے سفر میں اگر کوئی ہم مذاق مل جائے تو تمام راہ مزے سے کٹ جاتی ہے۔ گو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی بھی مل جائے تو وہ اس کے ساتھ وقت گزاری کرلیتے ہیں، مگر جناب میں غیرجنس سے بہت گھبراتا ہوں اور خصوصاً جب وہ پان کھاتا ہو۔ اب تو نہیں لیکن پہلے میرا یہ حال تھا کہ پان کھانے والے مسافر سے لڑائی تک لڑنے کو تیار ہو جاتا تھا۔ اگر جیت گیا تو خیر ورنہ شکست کی صورت میں خود وہاں سے ہٹ جاتا تھا۔ میں ایک بڑے ضروری کام سے دہلی سے آگرہ جا رہا تھا۔ خوش قسمتی سے ایک بہت دلچسپ ساتھی غازی آباد سے مل گئے۔ یہ ایک ہندو بیرسٹر کے لڑکے تھے اور ایم ایس سی میں پڑھتے تھے۔ خورجہ کے اسٹیشن پر ایک صاحب اور وارد ہوئے۔ یہ بھی ہم عمر۔۔۔ مزید پڑھیں  

مونا لسا

Image
  اس کہانی میں واقعات کو کم، ذہنی کیفیت اور دلی احساسات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ان احساسات میں ملن ہے، محبت اور جدائی ہے۔ وقت کی مناسبت سے کئی کردار ابھرتے اور ماند پڑ جاتے ہیں۔ ہر کسی کی اپنی کہانی ہے، مگر جو کہانی کہتا ہے، اس کی خود کی کہانی کہیں دھندلی پڑ جاتی ہے۔‘‘ پریوں کی سرزمین کو ایک راستہ جاتا ہے شاہ بلوط اور صنوبر کے جنگلوں میں سے گزرتا ہوا۔۔۔ مزید پڑھیں  

آؤ تا ش کھیلیں

Image
 لاجونتی: (اپنے پتی سے : اشتیاق بھرے لہجے میں آؤتاش کھیلیں۔ کشور: چونک کر کیا کہا؟ لاجونتی: کیا بہرے ہو گئے ہو؟۔۔۔ کل بھی پہربھر چلّاتی رہی اور تم نے خاک نہ سنا ۔۔۔ یہ سگرٹوں کی خشکی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟۔۔۔ کانوں میں بادام روغن کیوں نہیں ڈلواتے؟ کشور: نسخے بعد میں تجویز کرنا‘ پہلے یہ بتاؤ تم کہہ کیا رہی تھیں۔ لاجونتی: کہہ رہی تھی ‘ آؤ تاش کھیلیں۔۔۔ مزید پڑھیں

بازگوئی

Image
  صدیوں پرانے اس تاریخی شہر کے عین وسط میں عالمگیر شہرت کے چوراہے پر، بائیں طرف مضبوط اور کھردرے پتھروں کی وہ مستطیل عمارت زمانے سے کھڑی تھی جسے ایک دنیا عجائب گھر کے نام سے جانتی تھی۔۔۔ عجائب گھر کے بڑے ہال میں لمبے لمبے شوکیس پڑے تھے جن کے اندر ہزاروں برس پرانی تحریروں کے مسودے رکھے تھے۔ میں ان نسخوں کو دیکھتا ہوا دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا اور میری حیرانی بھی بتدریح بڑھ رہی تھی۔ عجیب و غریب رسم۔۔۔ مزید پڑھیں  

نہیں ہے فکر تجھے فکر ماسوا کے سوا

Image
 نہیں ہے فکر تجھے فکر ماسوا کے سوا ہزار بت ہیں ترے دل میں اک خدا کے سوا نہیں جو ضبط کی توفیق دے خدا کے سوا کہ لاکھ غم بھی ہیں عمر گریز پا کے سوا تمام مصلحتیں وقف ہیں خرد کے لئے۔۔۔ مزید پڑھیں

بادل نہیں آتے

Image
  اور بادل نہیں آتے، نگوڑے بادل نہیں آتے۔ گرمی اتنی تڑاخے کی پڑ رہی ہے کہ معاذ اللہ! تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح بھنے جاتے ہیں، تمازت آفتاب اور دھوپ کی تیزیت! بھاڑ بھی ایسا کیا گرم ہوگا، پوری دوزخ ہے۔ کبھی دیکھی بھی ہے؟ نہیں دیکھی تو اب مزا چکھ لو۔ وہ موئی چلچلاتی دھوپ ہے کہ اپنے ہوشوں میں تو دیکھی نہیں۔ چیل انڈا چھوڑتی ہے، ہرن تو کالے ہوگئے ہوں گے۔ بھئی کوئی پنکھے ہی۔۔۔ مزید پڑھیں

بیمار

Image
  افراد کمار : (بیمار) گڈوانی : رشید : بیدی : کمار کے دوست آتما سنگھ : مادھو : کمار کا نوکر (کھانسنے کی آواز سنائی دیتی ہے) کمار: (کھانستا ہے) مادھو۔۔۔مادھو۔۔۔(کھانستا ہے)۔۔۔مادھو۔۔۔افراد کمار : (بیمار) گڈوانی : رشید : بیدی : کمار کے دوست آتما سنگھ : مادھو : کمار کا نوکر (کھانسنے کی آواز سنائی دیتی ہے) کمار: (کھانستا ہے) مادھو۔۔۔مادھو۔۔۔(کھانستا ہے)۔۔۔مادھو۔۔۔ مزید پڑھیں

مجھے تنہائی کے غم سے بچا لیتے تو اچھا تھا

Image
  مجھے تنہائی کے غم سے بچا لیتے تو اچھا تھا سفر میں ہم سفر اپنا بنا لیتے تو اچھا تھا شکست فاش کا غم زندگی جینے سے بد تر ہے جھکانے کی بجائے سر کٹا لیتے تو اچھا تھا کبھی اشکوں پہ اتنا ضبط بھی اچھا نہیں ہوتا یہ چشمہ پھر ضرر دے گا بہا لیتے تو اچھا تھا۔۔۔ مزید پڑھیں

بن بست

Image
  افسانہ میں دو زمانے اور دو الگ طرح کے رویوں کا تصادم نظر آتا ہے۔ افسانہ کا مرکزی کردار اپنے بے فکری کے زمانے کا ذکر کرتا ہے جب شہر کا ماحول پر سکون تھا دن نکلنے سے لے کر شام ڈھلنے تک وہ شہر میں گھومتا پھرتا تھا لیکن ایک زمانہ ایسا آیا کہ خوف کے سایے منڈلانے لگے فسادات ہونے لگے۔ ایک دن وہ بلوائیوں سے جان بچا کر بھاگتا ہوا ایک تنگ گلی کے تنگ مکان میں داخل ہوتا ہے تو اسے وہ مکان پراسرار اور اس میں موجود عورت خوف زدہ معلوم ہوتی ہے اس کے باوجود اس کے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے لیکن یہ اس کے خوف کی پروا کیے بغیر دروازہ کھول کر واپس لوٹ آتا ہے۔‘‘ اس بار وطن آنے کے بعد میں نے شہر میں دن دن بھر گھومنا شروع کیا اس لیے کہ میرے پاس کچھ کرنے۔۔۔ مزید پڑھیں