پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں ہم بھی تم بھی کس قدر بے بس و مجبور ہیں ہم بھی تم بھی آج بھی اندھی سرنگوں میں بسر کرتے ہیں اور اجالوں سے بہت دور ہیں ہم بھی تم بھی۔۔۔ مزید پڑھیں
سرخ کھردرے کمبل میں عطاء اللہ نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی اور اپنی مندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی دبیز چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں جن کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے تھے۔ ایک لمبا، بہت ہی لمبا، نہ ختم ہونے والا دالان تھا یا شاید کمرہ تھا جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہورہی تھی۔۔۔ مزید پڑھیں
ڈوب جانے کے لئے ہر کوئی تیار بھی ہو کیسے روکے گا سفر میں کوئی رستہ جب کہ دل میں اک جوش بھی ہو پاؤں میں رفتار بھی ہو ساری امیدیں اسی ایک سہارے کی۔۔۔ مزید پڑھیں
Comments
Post a Comment